عمران خان پر پہلے سے زیادہ اعتماد کا اظہار ووٹنگ کے وقت اسمبلی کے مناظر

 



شیخ رشید احمد کی اس بات پر قومی اسمبلی میں جہاں سب کو ہنسی آئی وہیں وزیرِ اعظم عمران خان بھی مسکرا دیے کہ"اپوزیشن کے دن بہت لمبے ہوتے ہیں خان صاحب، اور اقتدار کے دن بہت تھوڑے۔"

دوسری مرتبہ ایسا تب ہوا جب پارٹی کے رکن عامر لیاقت نے اچانک سے مبارکباد دینے کے بعد ایک نظم سنانی شروع کردی اور وزیر اعظم عمران خان کو خاص طور سے دھیان دینے کا کہہ کر اشعار پڑھے کہ "میرے اپنوں نے منہ ہے مجھ سے پھیرا"

یہ سنیچر کے روز قومی اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ کے دوران دوسری مرتبہ ہوا جب عمران خان تھوڑا بہت مسکراتے ہوئے نظر آئے۔ ورنہ اس کے برعکس پورے دن کی کارروائی کے دوران عمران خان خاموش اور خیالوں میں گُم نظر آئے۔

ان کا دھیان تب ایوان میں موجود لوگوں کی طرف مبذول ہوا جب سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کارروائی شروع کرنے سے پہلے کہا کہ اراکین دیکھ لیں اگر کوئی غیر حاضر ہے۔ اس بات پر عمران خان اپنی نشست سے ُمڑ کر پیچھے کی بینچز پر دیکھنا شروع ہوگئے۔ اس دوران پیچھے بیٹھے اراکین بھی بے چینی میں اپنی نشست پر سیدھا ہو کر بیٹھ گئے یا گھبرا کر ہنس دیے۔ 

ہفتہ کے روز عمران خان کے ایوان میں داخل ہوتے ہی پاکستان تحریکِ انصاف کے مختلف اراکین عمران خان کا دل بہلانے کے لیے مختلف کام کرتے ہوئے نظر آئے۔

جہاں کچھ اراکین نے "نوٹ کو عزت دو" کے بینر اپوزیشن کی خالی بینچز کے سامنے لگا دیے-وہیں باقی اراکین نے نوٹوں کے ہار ان بینر پر ٹانگ دیے۔ دوسری جانب، ہر دوسرے منٹ کوئی نہ کوئی ممبر عمران خان کو تسلی دینے کے لیے ان کی سیٹ پر پہنچ رہا تھا۔ یا پھر وزیٹرز گیلری میں بیٹھے کارکن نعرے لگاتے ہوئے نظر آئے۔

اپوزیشن کی خالی بینچز پر تب سب کی نگاہ پڑی جب ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ ایوان میں داخل ہوئے۔ انھوں نے آتے ہی پہلے خود بینر اور نوٹوں کے ہار ہٹانا شروع کردیے اور آس پاس پوچھا کہ یہ کیا کِیا ہے؟ ان کو دیکھتے ہوئے وفاقی وزیر مراد سعید مسکراتے ہوئے اور ان کو گلے لگانے پہنچے۔

واضح رہے کہ محسن داوڑ کی پاکستان ڈیموکریٹک الائنس میں شمولیت ایک مسئلہ بن گئی تھی جس کے نتیجے میں جمیعت علما اسلام فضل کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے ان کو تحریک میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ چنانچہ ہفتہ کے روز اعتماد کے ووٹ کے دوران ان کا ایوان میں آنا عجیب تھا-


کچھ دیر بعد پرویز خٹک ان کے پاس بیٹھے ہوئے دکھائی دیے اور دونوں کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔اور ووٹنگ کا عمل شروع ہونے سے پانچ منٹ پہلے تک محسن داوڑ شاہ فرمان کے ساتھ بات چیت میں مصروف نظر آئے اور پھراچانک غائب ہوگئے۔

ووٹنگ  شروع ہوتے ہی جہاں سب ممبران ایک ایک کر کے ووٹ ڈالنے پہنچے وہیں وزیرِ داخلہ شاہ محمود قریشی بھی کمر میں درد ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ لاٹھی کے سہارے پہنچے۔

ووٹ ڈالنے کے ساتھ ہی بہت سے ممبران ایک بار پھر عمران خان کی کرسی کے پاس نظر آئے، ایک بار پھر تصویریں کھنچوائی گئیں۔ انھیں لوگوں میں شہریار خان آفریدی بھی شامل تھے جو ووٹ ڈالتے ہی عمران خان سے ملنے پہنچے۔ وزیرِ اعظم کی طرف سے زیادہ دھیان نہ ملنے پر وہ واپس اپنی جگہ پر چلے گئے۔

پی ٹی آئی کے ایک رکن نے عمران خان کو بتایا کہ ’میں اب نکل رہا ہوں، آج میرے بیٹے کی شادی ہے۔‘ عمران خان یہ سن کر اپنی کرسی سے اٹھے اور ان کو مبارکباد دے کر رخصت ہونے کا کہا-


ووٹ کی گنتی ہوتے ہی عمران خان نے سب سے پہلے اپنے تمام ٹیم ممبران کا شکریہ کیا ’جو بیماری اور مصروفیت کے باوجود ان کے لیے اعتماد کا ووٹ ڈالنے ایوان پہنچے۔ لیکن ساتھ ہی انھوں نے اس بات کا اضافہ بھی کردیا کہ ’اگر میری پوری ٹیم مجھے چھوڑ کر چلی جائے گی تو بھی میں اکیلا لڑتا رہوں گا-

یہاں یہ بات کرنا بھی ضروری ہے کہ اعتماد کے ووٹ سے ایک روز پہلے پاکستان تحریکِ انصاف کے اراکین کو عمران خان کی جانب سے ایک خط موصول ہوا تھا۔ اس خط میں اراکین کو متنبہ کیا گیا تھا کہ ’اگر کوئی رکن وزیرِ اعظم کو اعتماد کا ووٹ نہیں دے گا یا غیر حاضر رہے گا تو اس کے خلاف آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی کے لیے الیکشن کمیشن کو لکھا جائے گا۔۔‘

الیکشن کمیشن کی جہاں بات آئی تو عمران خان نے اپنی تقریر کے آخر میں وفاقی وزیر فواد چوہدری کے یاد دلانے پر کہا کہ ’ایسا سمجھا گیا کہ ہم نے بے ادبی کی ہے۔ لیکن ہم ایک ایسا نظام لے کر آئیں گے جس کے تحت آئندہ انتخابات کا انحصار ٹیکنالوجی پر ہوگا نا کہ پیپر پر۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ خفیہ اداروں سے بریفنگ لیں تاکہ انھیں بھی معلوم پڑے کہ سینیٹ الیکشن میں کتنا پیسہ لگا ہے۔‘

ان کی تقریر کا پہلا حصہ ان تمام باتوں سے بھرا ہوا تھا جو وہ اس سے پہلے بھی کئی بار دہرا چکے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے خالد مقبول صدیقی کی ہر بات پر ٹیبل بجائی جارہی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’میرے سو سے زیادہ کارکنان لاپتہ ہیں میں کیسے خاموش رہوں؟‘ اس بات پر ٹیبل نہیں بجی اور نہ ہی داد آئی۔

شیخ رشید نے انھیں یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ’میں مالشی نہیں ہوں۔ لیکن ایک بات جانتا ہوں، سرمایہ دار کسی کا دوست نہیں ہوتا۔انڈسٹریلسٹ کو چھوڑ دیں اور اس بار غریبوں کا ساتھ دیں۔ غریبوں کے لیے ایسی رعایتیں لائیں کہ آپ اور بھی آگے چلے جائیں۔‘

بعد میں سپیکر نے انھیں مالشی کا لفظ واپس لینے کا کہا-

اتحادیوں کی جانب سے تقاریر کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے جہاں خالد مقبول صدیقی سے ہاتھ ملایا وہیں دوسرے نمبر پر کھڑے شیخ رشید کو چھوڑ کر ان کے ساتھ کھڑے وزیر سے ہاتھ ملایا۔ لیکن یاد آنے پر عمران خان دوبارہ شیخ رشید سے ہاتھ ملانے گئے، جس کے بعد یہ باتیں بھی ہونے لگیں کہ کچھ تومسئلہ یاگڑبڑ لگتی ہے-



Comments

Popular posts from this blog

پنسلیں اور ربڑ بیچ کر گھر کا کچن چلانے والا نوجوان انٹرنیٹ سے 15 لاکھ ماہانہ کمانے لگا

گوادر کرکٹ اسٹیڈیم کی دل کو موہ لینے والی خوبصورتی - پاکستان نے ایک اور آرکیٹیکچرل عجوبہ کوحاصل کیا

سینٹ کے چیئرمین کا الیکشن اور خفیہ کیمرے